واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی

رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ  ترکستان میں پیدا ہوئے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے والد کا اسم گرامی شیخ احمد بسوی تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا سلسلہ نصب چند واسطوں سے حضرت محمد حنیف بن حضرت علی مرتضیٰؓ سے ملتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  شیخ علاؤالدین علی احمد صابر رحمتہ اللہ علیہ  کے خلیفہ تھے۔ سیرالاقطاب کے مصنف کہتے ہیں کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو حضرت خواجہ فرید شکر گنج سے بھی خرقہ خلافت ملا تھا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  انہیں کے کہنے پرآپ رحمتہ اللہ علیہ  حضرت صابر  رحمتہ اللہ علیہ  کے ساتھ کلیر شریف پہنچے۔ خدمت گزاری کی وجہ سے حضرت صابر رحمتہ اللہ علیہ   آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو اپنا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  پندرہ سال تک حضرت صابر رحمتہ اللہ علیہ  کے غسل ، وضو، کھانا پکانے اور لکڑیاں لانے کی خدمت پر معمور رہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

   جب حضرت صابر رحمتہ اللہ علیہ  کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے پاس بلایا اور خرقہ خلافت عطا کیااور ارشاد فرمایا میرے مرنے کے تین دن بعد پانی پت کو روانہ ہوجانا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے عرض کی کہ حضور پانی پت کی ولایت پر ان دنوں شرف الدین بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ فائض ہیں۔ میں وہاں کیسے جا سکتا ہوں۔ حضرت صابر رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایاکہ ان کی ولایت کا دور ختم ہوچکا ہے تم وہاں پہنچوگے تو وہ شہر کے دروازے پر آکر تمہیں ملیں گے۔

حضرت علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ  کے وصال کے تین دن بعد حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ پانی پت روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس لئے ایک دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ گئے۔ حضرت بو علی قلندر  رحمتہ اللہ علیہ  نے نور باطن سے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی حالت کو دیکھ لیا اور حجرے سے باہر آگئے۔  ایک حلوہ فروش کا بیٹا جو حضرت بو عل قلندر رحمتہ اللہ علیہ  کا منظور نظر تھا۔ اس نے حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ  سے پوچھا کہ حضرت آپ رحمتہ اللہ علیہ  کہاں جارہے ہیں۔ اس پر حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ  نے کہا کہ بیٹا اس علاقے کی ولایت ایک اور بزرگ کے حوالے ہوگئی ہے اب میرے لئے حکم نہیں کہ اس شہر میں رہ سکوں۔

حلوہ فروش کے بیٹے نے کہا کہ حضور مجھے اس صاحب ولایت سے ملاقات کروائیں۔ حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ فلاں محلے میں دیوار کے سائے میں تم کو ایک مرد درویش ملے گا بس وہی صاحب ولایت ہیں۔ وہ حلوہ فروش وہاں پہنچا تو اس نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو دیکھا اور واپس آگیا۔ اس وقت حضرت بوعلی قلندر رحمتہ اللہ علیہ  شہر سے نکل چکے تھے۔ اس کے بعد حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ شہر میں داخل ہوئے اور حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ  کے حجرے میں آئے اور پھر زندگی بھر وہیں قیام کیا۔ اس دوران حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ  اور حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ  آپس میں بڑی محبت اور اتحاد سے رہے۔

سیر الاقتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ پانی پت کے ایک سید شخص آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت میں حاضر ہوا  اور پوچھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی سیادت کس طریقے سے ثابت ہے۔ حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہم نے اپنے اباؤا جداد سے ایسے ہی سنا ہے اور ہمارے پاس نصب نامہ بھی ہے۔ اس بزرگ نے کہا کہ اس بات کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے ہماری تسلی نہیں ہوئی۔ جب حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بات سنی تو دل میں جوش پیدا ہوااور فرمایا عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص حضرت علیؓ کی اولاد سے ہوگا اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔آؤ ہم دونوں مل کر آگ میں کودجاتے ہیں جسے آگ نہ جلائے گی وہ سید ہوگا۔ یہ کہہ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ  خانقاہ کے تنور میں کود گئے اور تھوڑی دیر بعد اس سید کو آواز دی کہ تم بھی اندر آجاؤ تاکہ تمہاری سیاست کا بھی پتہ چل جائے۔ اس شخص نے تنور میں دیکھا آپ رحمتہ اللہ علیہ  بڑے مزے سے تنور میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہوا اور واپس ہوا ہی تھا کہ تنور کے اندر سے ایک شعلہ نکلا اور اس کے کپڑوں پر گرا جس سے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ وہ چیختا چلاتا ہائے ہائے کرتا دوڑ رہا تھا کہ حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ تنور سے باہر نکلے اور اس کی آگ بجھائی۔ جب اس شخص کی حالت ٹھیک ہوگئی تو اس نے توبہ کی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مرید ہوگیا۔

شیخ شاہ علی چشتی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ ایک رات میں بستر پر سویا ہوا تھا کہ میرے شریکوں میں سے ایک بھائی میرے قتل کی نیت سے داخل ہوا۔ اس نے تلوار کھینچی مجھے مارنا ہی چاہتا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے فوراً حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ کا تصور کرکے فریاد کی۔ میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھ جس میں چاندی کی انگوٹھی تھی اچانک نمودار ہوا اور اس شخص کو گردن سے پکڑ کر باہر پھینک دیا۔ میں اسی وقت اٹھا وضو کیا اور حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ کی روضے کہ طرف چل دیا۔ روضے پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھ روضہ اقدس سے باہر نکلا اور میرے سر پر رکھ دیا گیا۔ میں نے اس ہاتھ کو تبرکاً چوما اور آنکھوں کو لگایا۔ شیخ شاہ علی چشتی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اندھیرے کی وجہ سے میں اس ہاتھ کو دیکھ نہیں سکتا تھا دل میں آرزو ہوئی کاش اندھیری رات نہ ہوتی اور دن ہوتا تو میں اس ہاتھ کی زیارت بھی کرسکتا تھا۔ میرا یہ سوچنا ہی تھا کہ اسی وقت ہاتھ کے ناخن سے روشنی کی کرن نکلی اور میں نے دیکھا یہ وہی ہاتھ ہے جس میں چاندی کی انگوٹھی ہے جو میرے قتل کو ناکام کرنے کے لئے ظاہر ہوا تھا۔ میں نے روضے پر شکرانے کے ہزار نوافل ادا کئے، فاتحہ کا تحفہ پیش کیا اور گھر واپس آگیا۔

صاحب سیرالاقطاب نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ نے ہندوستان میں نہ شادی کی نہ اولاد ہوئی مگر ۱۰۵۰ ہجری میں سید صفدر خاں جو مغل حکمران شاہ جہان کی طرف سے اکبرآباد کا گورنر تھا کسی وجہ سے معزول ہوکر اپنے وطن واپس جارہا تھا تو پانی پت میں حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ کے روضے کی زیارت کے لئے وہاں رک گیا۔ جب اس نے مجاوروں سے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے حالات زندگی معلوم کیے تو وہ بہت رویا اور کہنے لگا کہ میں حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہوں میں ہندوستان صرف حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ  کی زیارت کے لئے آیا تھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مزار اقدس کہاں واقع ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنا نصب نامہ مجاوروں کو دکھایا جو حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔ مجاوروں نے لکھائی کا موازنہ کیا تو ویسا ہی پایا۔ سید صفدر خاں نے بتایا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے ترکستان میں شادی کی تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے بیٹے کا نام سید احمد تھا۔ ہندوستان میں تشریف آوری کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے بیٹے کی وہاں بہت اولاد ہوئی۔ جب یہ بات شاہ جہان تک پہنچی تو اس نے صفدر خاں کو دوبارہ واپس بلایا اور صاحب زادگی کے ادب کے پیش نظر  قابل اور قندھار کی حکومت سید صفدر خاں کے حوالے کردی۔

حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی  رحمتہ اللہ علیہ با اتفاق مورخانِ صادق ۷۱۸ہجری میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی آخری آرام گاہ پانی پت ہندوستان میں ہے۔